
میونسپل کمیٹی اور پبلسٹی ٹیکس
محمد عارف خان (کھاریاں)
پاکستان میں میونسپل کمیٹیوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مختلف ٹیکسز کی وصولی کے لیے ٹھیکے (contracts) جاری کر سکیں۔ یہ خصوصاً ان آمدنی کے ذرائع کے لیے ہوتا ہے جہاں براہ راست وصولی انتظامی طور پر مشکل یا مہنگی ہو۔ پبلسٹی ٹیکس (ہوڈنگز، فلیکس، بورڈز وغیرہ پر) انہی مدوں میں سے ایک ہے جہاں ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔ قانونی طور پر میونسپل کمیٹی ٹیکس وصولی کے ٹھیکے کے بعد کیا مجاز رہتی ہے یا بری الذمہ ہو جاتی ہے؟
میونسپل کمیٹی بری الذمہ نہیں ہوتی بلکہ نگرانی کی مجاز رہتی ہے۔ میونسپل کمیٹی ٹیکس عائد کرنے اور وصول کرنے کا قانونی اختیار رکھتی ہے۔ ٹھیکہ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے اس بنیادی اختیار سے دستبردار ہو جاتی ہے۔ ٹھیکیدار صرف کمیٹی کی جانب سے اس عمل کو انجام دیتا ہے۔
میونسپل کمیٹی کا یہ فرض ہے کہ وہ ٹھیکیدار کی کارکردگی کی نگرانی کرے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ قواعد و ضوابط کے مطابق ٹیکس وصول کر رہا ہے اور کوئی ناجائز وصولی یا بدعنوانی نہ ہو۔
میونسپل کمیٹی ٹھیکیدار سے طے شدہ رقم وصول کرنے کے بعد ٹیکس وصولی کے عمل سے "بری الذمہ” نہیں ہو جاتی۔ اس کے برعکس اسے یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ ٹھیکیدار اپنی مقررہ حد سے تجاوز نہ کرے اور شہریوں کو ہراساں نہ کرے۔ اگر ٹھیکیدار شرائط کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کمیٹی اس کے خلاف کارروائی کرنے، ٹھیکہ منسوخ کرنے یا جرمانہ عائد کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔ اگر عوام ٹھیکیدار کے خلاف کسی قسم کی شکایت کرتے ہیں (مثلاً ناجائز ٹیکس وصولی، اضافی جرمانوں یا ہراسانی کی) تو میونسپل کمیٹی پھر ان شکایات کو سننے اور ان کا ازالہ کرنے کی مجاز اور ذمہ دار ہوتی ہے
ٹھیکیدار دراصل میونسپل کمیٹی کے "ایجنٹ” کے طور پر کام کرتا ہے جو ایک معاہدے کے تحت طے شدہ رقم کے عوض ٹیکس وصولی کا حق خریدتا ہے۔
اسے ٹیکس کی وہی شرحیں اور قواعد لاگو کرنے کا اختیار ہوتا ہے جو میونسپل کمیٹی نے مقرر کیے ہیں وہ اپنی مرضی سے ٹیکس کی شرحیں بڑھا یا گھٹا نہیں سکتا۔ ٹھیکیدار کی تمام کارروائیاں میونسپل کمیٹی کے قوانین اور ٹھیکے کی شرائط کے ماتحت ہوتی ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ٹھیکیدار اپنی زیادہ سے زیادہ آمدنی یقینی بنانے کے لیے بعض اوقات ناجائز طریقے اپناتا ہے یا اضافی رقم کا مطالبہ کرتا ہے وہ ایسے بورڈز پر بھی ٹیکس لگانے کی کوشش کرتا ہے جو قانونی طور پر ٹیکس کے دائرہ کار میں نہیں آتے یا ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرتا ہے۔ جب میونسپل کمیٹی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی اور ٹھیکیدار کی سرگرمیوں پر کڑی نظر نہیں رکھتی تو مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ بعض اوقات مقامی اہلکاروں کی ملی بھگت بھی ہوتی ہے جس سے ٹھیکیدار کو من مانی کرنے کا موقع ملتا ہے۔ دوسری طرف عوام کو اکثر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اصل ٹیکس کی شرح کیا ہے اور ٹھیکیدار کے پاس کیا اختیارات ہیں اس لاعلمی کا فائدہ اٹھا کر ٹھیکیدار غیر قانونی وصولیاں کرتا ہے۔ عوام اور میونسپل کمیٹی کے درمیان مسئلہ کیسے حل ہوتا ہے؟
متاثرہ افراد یا کاروباری حضرات میونسپل کمیٹی کے اعلیٰ حکام یا متعلقہ محکمہ کو تحریری شکایت درج کرواتے ہیں۔ کمیٹی ان شکایات پر تحقیقات کرتی ہے اور ٹھیکیدار کو جوابدہی کے لیے طلب کرتی ہے۔ کمیٹی عوامی سطح پر ٹیکس کی شرحوں اور ٹھیکیدار کے اختیارات کی وضاحت کرتی ہے تاکہ عوام کو معلوم ہو کہ انہیں کتنا ٹیکس ادا کرنا ہے۔
اگر ٹھیکیدار کی جانب سے مستقل بدعنوانی یا زیادتی کی شکایات موصول ہوں تو کمیٹی اس کا ٹھیکہ منسوخ کر سکتی ہے اور اسے بلیک لسٹ بھی کر سکتی ہے۔ میونسپل کمیٹی عوامی آگاہی مہم چلاتی ہے تاکہ شہریوں کو اپنے حقوق اور واجبات کے بارے میں علم ہو وہ ایک ہیلپ لائن بھی قائم کرتی ہے جہاں شکایات درج کروائی جا سکیں۔ اگر معاملہ حل نہ ہو تو متاثرہ فریق عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔
بعض اوقات کاروباری برادری یا عام شہری احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں تاکہ متعلقہ حکام پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ میونسپل کمیٹی ٹیکس وصولی کا ٹھیکہ دینے کے بعد ٹیکس وصولی کے عمل سے مکمل طور پر بری الذمہ نہیں ہوتی۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹھیکیدار کی نگرانی کرے قوانین کی پابندی یقینی بنائے اور عوام کی شکایات کا ازالہ کرے۔ یہ معاہدہ صرف وصولی کے انتظامی عمل کو ٹھیکیدار کو منتقل کرتا ہے ٹیکس عائد کرنے اور اس پر کنٹرول کا اختیار اب بھی کمیٹی کے پاس ہی رہتا ہے۔ اگر کسی بھی شہر یا علاقہ میں اس معاملے پر کوئی خاص تنازعہ بن جائے تو یہی عمومی اصول اس پر بھی لاگو ہوں گے۔