
زمانہ بدل رہا ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ ہماری روایات اور تہوار منانے کے انداز بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب عید محض ایک تہوار نہیں بلکہ ایک جذباتی وابستگی تھی، جس کا ہر فرد بے صبری سے انتظار کرتا تھا۔ آج کی تیز رفتار زندگی میں، یہ جوش و خروش کچھ حد تک ماند پڑ چکا ہے، خاص طور پر بڑوں میں۔
اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو عید کا آغاز چاند رات سے ہی ہو جاتا تھا۔ خواتین مہندی لگانے اور چوڑیاں پہننے میں مصروف ہوتی تھیں، مرد حضرات خریداری میں مگن ہوتے تھے، اور بچے نئے کپڑوں کی خوشی میں رات بھر سو نہیں پاتے تھے۔ عید کی صبح مسجد میں رش، محلے داروں سے ملاقات، اور گھروں میں مہمانوں کی آمد و رفت ایک خوشگوار روایت تھی۔
لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ خوشیاں صرف بچوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ بڑی عمر کے افراد کے لیے عید بس ایک رسمی تہوار بنتی جا رہی ہے۔ جہاں پہلے لوگ عید کی تیاری مہینوں پہلے شروع کر دیتے تھے، اب یہ صرف ایک دن کی رسمی ملاقاتوں اور سوشل میڈیا پر مبارکباد کے پیغامات تک محدود ہو چکی ہے۔
اس تبدیلی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جدید مصروف زندگی، معاشی دباؤ، اور سوشل میڈیا کی بے جا مداخلت نے عید کے حقیقی جوش کو کم کر دیا ہے۔ اب لوگ عید کی بجائے چھٹی کا دن سمجھ کر آرام کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ روایتی میل جول کی جگہ ویڈیو کالز اور ڈیجیٹل پیغامات نے لے لی ہے۔
بچوں کے لیے عید آج بھی خاص ہے کیونکہ ان کے لیے یہ دن نئے کپڑوں، عیدی اور کھلونوں کی خوشی لاتا ہے۔ ان کی معصوم خوشی ہمیں احساس دلاتی ہے کہ شاید ہم نے اپنی مصروفیات میں عید کی اصل خوشی کو کہیں کھو دیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عید کی حقیقی روح کو بحال کریں۔ نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں کو بھی اس موقع کو بھرپور طریقے سے منانا چاہیے۔ اہلِ خانہ کے ساتھ وقت گزارنا، رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات کرنا، اور روایتی خوشیوں کو دوبارہ زندہ کرنا ضروری ہے۔ عید محض ایک تہوار نہیں بلکہ ایک خوشی ہے، جو بانٹنے سے بڑھتی ہے۔
ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ عید محض نئے کپڑے پہننے یا عیدی لینے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا موقع ہے جو محبتیں بڑھانے اور خوشیاں بانٹنے کے لیے آتا ہے۔
syedusmanfiaz727@gmail.com