پاک بھارت تنازعہ

Muhammad Usman Fiaz

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی ایک بار پھر خطے کو عدم استحکام کی طرف لے جا رہی ہے۔ اپریل 2025 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد بھارت نے فوری طور پر اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا۔ اگرچہ پاکستان نے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا، لیکن بھارت کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا، اس نے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا۔ بھارت نے نہ صرف سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا بلکہ کشمیر میں ہائیڈرو پاور منصوبوں کی تعمیر میں تیزی لانے کا بھی اعلان کیا، جس سے پاکستان کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ یہ اقدام اس کے آبی وسائل پر سنگین اثر ڈالے گا۔

پاکستانی حکومت نے بھارت کے ان اقدامات کو کھلی جارحیت قرار دیا ہے اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری کو متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزارت خارجہ نے سخت بیانات جاری کیے، جن میں بھارت کو خبردار کیا گیا کہ پاکستان اپنے دفاع کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ ملکی سیاستدانوں نے بھی اس موقع پر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ بعض وزرا کے بیانات میں تو جوہری جنگ کی دھمکیوں تک کا ذکر آیا، جس سے صورتحال مزید بگڑتی نظر آئی۔

تاہم جو چیز اس بار سب سے نمایاں اور منفرد رہی وہ پاکستانی عوام کا رویہ اور جذبہ تھا۔ سوشل میڈیا پر عوام کی ایک بڑی تعداد نے اس ممکنہ جنگی صورتحال کو نہ صرف سنجیدگی سے لیا بلکہ اسے جذباتی اور مزاحیہ انداز میں پیش کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام پر ہزاروں کی تعداد میں میمز شئیر کیے گئے، جن میں بھارتی افواج، بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا کو طنز و مزاح کا نشانہ بنایا گیا۔ جنگی ماحول میں بھی پاکستانی نوجوانوں نے اپنی مخصوص حسِ مزاح کو برقرار رکھا، اور "میم وار” نے جنگی تناؤ میں ایک عجیب ہی رنگ بھر دیا۔

صرف سوشل میڈیا ہی نہیں، زمینی سطح پر بھی عوام کے جذبات عروج پر ہیں۔ دفاعی اشیاء کی فروخت میں اضافہ دیکھا گیا۔ بازاروں میں ایسے کپڑے اور سوٹ فروخت کیے جا رہے ہیں جن پر پاکستانی پرچم کے رنگ نمایاں ہیں۔ بعض نوجوان جنگی تھیم والے لباس خرید کر تصاویر بنوا رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں حب الوطنی کے گانے چلائے جا رہے ہیں، اور عوامی جوش و جذبہ عروج پر ہے۔ کچھ دکانداروں کا کہنا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے 23 مارچ یا 14 اگست کی کوئی بڑی تقریب آ رہی ہو۔ ایسے مناظر اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستانی عوام اس نازک وقت میں پوری طرح تیار اور پرعزم دکھائی دیتی ہے۔

اس جوشیلے عوامی ردعمل کے باوجود ایک بڑی اور سنجیدہ سوچ رکھنے والا طبقہ ایسا بھی ہے جو جنگ کے بجائے امن کا خواہاں ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ دونوں ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ نہ صرف دونوں ملکوں کے لیے تباہی لائے گی بلکہ پورے خطے کو متاثر کرے گی۔ ان لوگوں کی کوشش ہے کہ حکومتیں مذاکرات کی میز پر آئیں اور مسائل کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔

دوسری طرف بھارت میں بھی جنگی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ ملک بھر میں ہنگامی مشقیں، ایئر ریڈ سائرن، اور شہریوں کی تربیت کے مراحل مکمل کیے جا رہے ہیں۔ یہ تیاریاں 1971 کے بعد سب سے بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہیں۔ بھارت کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں بھی سخت بیانات اور جوشیلے نعرے سننے کو مل رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ دونوں طرف کی عوام اور حکومتیں اس بار کوئی بھی بڑا قدم اٹھانے سے نہیں ہچکچائیں گی۔

بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتیں دونوں ممالک سے تحمل اور مذاکرات کی اپیل کر رہی ہیں، مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ صورتحال لمحہ بہ لمحہ سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر سفارتی چینلز فعال نہ کیے گئے تو یہ کشیدگی ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

پاکستانی عوام اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف حب الوطنی کا جذبہ عروج پر ہے، تو دوسری طرف امن و استحکام کی خواہش بھی دلوں میں موجود ہے۔ سوشل میڈیا پر میمز اور جوشیلے پوسٹیں ایک طرف، اور حقیقت یہ ہے کہ جنگ میں نہ فاتح ہوتا ہے نہ مفتوح، دونوں طرف انسانی جانوں کا نقصان ہوتا ہے۔ ایسے میں دانشمندی اسی میں ہے کہ حکومتیں جذباتی فیصلوں سے گریز کرتے ہوئے عقل و حکمت سے کام لیں اور امن کو ترجیح دیں۔

مگر اگر بات دفاعِ وطن کی ہو، تو پاکستانی عوام اپنے اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ہر فرد، ہر نوجوان، ہر بوڑھا اور ہر بچہ اس وقت پوری قوم کی مانند متحد ہے۔ چاہے وہ جنگ ہو یا امن، پاکستانی قوم نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ مشکل گھڑی میں ایک جسم، ایک آواز اور ایک جذبہ رکھتی ہے۔

اوپر تک سکرول کریں۔