نو مئی 2023: قوم کی پہچان یا ندامت کا دن؟

یا شرمندگی کا باعث۔ مگر 9 مئی 2023 ایک ایسا دن تھا جس نے ریاست، عوام اور اداروں کے درمیان اعتماد کی دیواروں کو شدید ہلا کر رکھ دیا۔ یہ دن محض ایک احتجاج کا دن نہیں تھا، یہ ایک ذہنی اور قومی انتشار کی عکاسی تھی، ایک ایسا واقعہ جس نے حب الوطنی کے نعروں میں چھپی نفرت، غیر سنجیدگی اور ذاتی مفادات کے سائے کو نمایاں کر دیا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں جو کچھ ہوا، وہ نہ صرف حیران کن تھا بلکہ پاکستان جیسے حساس اور داخلی خطرات سے دوچار ملک کے لیے خطرناک بھی۔ جلاؤ گھیراؤ، سرکاری و نجی املاک پر حملے، فوجی تنصیبات پر یلغار، GHQ کے مرکزی دروازے پر ہجوم کی چڑھائی، اور لاہور میں جناح ہاؤس کی بے حرمتی — یہ سب کچھ کسی دشمن ریاست نے نہیں، بلکہ اپنے ہی عوام نے کیا۔ یہ احتجاج نہیں تھا، یہ طوفانِ بدتمیزی تھا جو چند لمحوں میں ریاستی رٹ، قومی وقار اور عوامی اعتماد کو تار تار کر گیا۔

عمران خان کی گرفتاری کا جواز، طریقہ اور اس کے وقت پر کئی سوالات اٹھ سکتے ہیں، مگر کسی بھی مہذب ریاست میں اس کا جواب جلاؤ گھیراؤ نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے 9 مئی کے روز یہی تاثر دیا گیا کہ اگر ہمارا لیڈر گرفتار ہو گا تو ہم ریاستی اداروں کو بھی نہ بخشیں گے۔ یہ رویہ کسی سیاسی شعور کی علامت نہیں بلکہ ایک خطرناک شدت پسندی کی عکاسی ہے، جو جمہوریت کی روح کو کچل کر ذاتی وابستگیوں کو مقدم جانتی ہے۔

عوامی ردعمل کی نوعیت نے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حیران کیا، وہیں عام شہری بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ وہی ملک ہے جس کے لیے قربانیاں دی گئیں؟ کیا یہ وہی قوم ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف ایک لمبی جنگ لڑی اور ہزاروں جانیں گنوائیں؟ اور آج ہم خود اپنے ہی اداروں، اپنی ہی املاک، اپنے ہی آئین کے خلاف کھڑے ہو چکے ہیں؟

سوشل میڈیا پر بھی اس دن کا اثر واضح نظر آیا۔ جہاں ایک طرف تحریک انصاف کے حامی اسے "سیاسی انتقام” قرار دے رہے تھے، وہیں دوسری طرف لاکھوں صارفین اس دن کو پاکستان کی تاریخ کا "سیاہ دن” کہہ رہے تھے۔ کچھ نوجوان جذبات میں آ کر فوج کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے، تو کچھ ملک کے آئینی ڈھانچے کو لپیٹنے کی باتیں کر رہے تھے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے: کیا یہ سب آزادیٔ رائے کے زمرے میں آتا ہے؟ یا ہم خود اپنی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہو چکے ہیں؟

ریاست کا ردعمل بھی شدید تھا۔ 9 مئی کے بعد گرفتاریاں ہوئیں، ہزاروں کارکنان جیلوں میں ڈالے گئے، ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا عندیہ دیا گیا۔ اس عمل پر بھی تنقید ہوئی، کہ کیا سیاسی کارکنوں کے لیے فوجی عدالتیں موزوں ہیں؟ مگر ریاست نے اپنا مؤقف دیا کہ جن لوگوں نے ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا، وہ صرف سیاسی کارکن نہیں، بلکہ ریاست دشمن سرگرمیوں کے مرتکب ہوئے۔

سیاسی جماعتوں نے بھی 9 مئی کے واقعے کو اپنے بیانیے کے لیے استعمال کیا۔ حکومت نے اسے عمران خان کی سیاست کا نتیجہ قرار دیا، جبکہ پی ٹی آئی نے اسے عوامی ردعمل کہا۔ سچ یہ ہے کہ اس دن کی حقیقت اتنی آسان نہیں جتنی زبانوں پر ہے۔ یہ دن ایک اجتماعی ناکامی کا دن تھا — قیادت کی بھی، عوام کی بھی، اور شاید خود ریاست کی بھی۔

اس دن کا سب سے خطرناک پہلو یہ تھا کہ نوجوان نسل جو تبدیلی کے خواب لیے سیاست میں آئی تھی، وہ الجھن کا شکار ہو گئی۔ ان کے لیے ہیرو اور ولن کی تمیز ختم ہو گئی۔ ان کے لیے ملک، پارٹی اور ادارے سب ایک ہی سطح پر آ گئے۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب قومی بیانیہ بکھر گیا۔

ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ اگر ہر سیاسی اختلاف ریاستی اداروں پر حملے میں بدلے گا، اگر ہر گرفتاری قانون کی حکمرانی کو کمزور کرے گی، اگر ہر احتجاج انارکی بن جائے گا — تو پھر آئندہ نسلیں ہمیں کیا سمجھیں گی؟ کیا ہم واقعی جمہوریت کے طلبگار ہیں یا صرف اپنی مرضی کی حکومت چاہتے ہیں؟

9 مئی ہمیں یہ سبق دے گیا کہ صرف سیاسی قیادت نہیں، عوام کو بھی سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ جوش اور جذبہ اپنی جگہ، مگر جب تک ہم اپنے رویوں میں بالغ نظری نہیں لائیں گے، اس وقت تک قومیں تعمیر نہیں ہوتیں، صرف انتشار پھیلتا ہے۔ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ اس دن جو کچھ ہوا وہ غلط تھا۔ اور اس غلطی کی اصلاح صرف گرفتاریوں سے نہیں، اجتماعی سوچ کی تبدیلی سے ہو گی۔

9 مئی 2023 کا دن ہماری تاریخ کا ایک تلخ باب بن چکا ہے۔ اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اسے صرف ایک شرمندگی سمجھ کر بھول جائیں، یا اس سے سیکھ کر ایک بہتر ریاست اور معاشرہ قائم کریں۔ وقت ہے کہ ہم اپنی سمت درست کریں، ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

 

syedusmanfiaz727@gmail.com

اوپر تک سکرول کریں۔