Muhammad Usman Fiaz
صحافت محض ایک پیشہ نہیں، یہ معاشروں کی نبض ہوتی ہے۔ یہ وہ ذریعہ ہے جس سے عوام اپنے حکمرانوں کے اعمال پر نظر رکھتے ہیں، اور ایک ایسا ستون ہے جس پر جمہوریت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا آج کی صحافت صرف رائے کے اظہار کا ذریعہ بن چکی ہے؟ یا وہ سچائی کی تلاش اور اس کے اظہار کا فریضہ بھی انجام دے رہی ہے؟ اس سوال کا جواب پیچیدہ ہے، اور اس پر غور کرنا ہمارے وقت کی سب سے بڑی ضرورت۔
پاکستان جیسے ملک میں، جہاں سیاسی عدم استحکام، طاقتور ادارے، اور مختلف بیانیے روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہوتے ہیں، صحافت کا کردار اور بھی حساس ہو جاتا ہے۔ یہاں خبر دینا صرف اطلاع دینے کا عمل نہیں، بلکہ ایک سیاسی قدم تصور کیا جاتا ہے۔ اسی لیے صحافیوں کو اکثر طاقت کے مراکز کی طرف سے دباؤ، دھمکیاں، یا حتیٰ کہ تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال میں سچ بولنا آسان نہیں، اور یہی وہ مقام ہے جہاں "آزاد رائے” اور "سچ” کے درمیان لکیر دھندلا جاتی ہے۔
آزاد رائے یقیناً ایک بنیادی حق ہے، اور ہر صحافی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سوچ اور تجزیہ بیان کرے۔ لیکن جب خبر اور رائے کے درمیان فرق مٹ جاتا ہے، تو صحافت گمراہ کن ہو جاتی ہے۔ ایک وقت تھا جب صحافی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے غیر جانبدار تجزیہ پیش کرتے تھے۔ آج، بہت سے نیوز اینکرز اور کالم نگار اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں یا مفادات کے تحت رپورٹس اور تجزیے پیش کرتے ہیں، جو کہ صحافت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ ایک صحافی اگر رائے دیتا ہے تو اسے واضح کرنا چاہیے کہ یہ ذاتی رائے ہے، نہ کہ خبر۔ مگر ہمارے ہاں بیشتر نیوز رپورٹیں دراصل "اداریے” بن چکی ہیں جن میں ذاتی نظریات اور جذبات غالب ہوتے ہیں۔
دوسری طرف، ایسے صحافی بھی ہیں جو سچ بولنے کی قیمت جانتے ہیں، اور پھر بھی بولتے ہیں۔ وہ حکومتی کرپشن، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اور معاشرتی ناانصافیوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے الفاظ کسی طاقتور کو ناگوار گزریں گے، مگر وہ خاموشی اختیار نہیں کرتے۔ ان کے کالم سنسر ہو جاتے ہیں، ان کے چینل بند کیے جاتے ہیں، ان پر مقدمات درج ہوتے ہیں، مگر وہ رکنے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہی وہ صحافی ہیں جنہوں نے اس پیشے کی عزت بچا رکھی ہے۔
صحافت کا اصل مقصد عوام کو باخبر رکھنا ہے۔ سچائی کو ڈھونڈ کر لانا اور بغیر کسی خوف یا لالچ کے اسے پیش کرنا، یہی صحافت کی روح ہے۔ اگر صحافت صرف رائے کا اظہار بن جائے، اور سچائی کی ذمہ داری سے کنارہ کش ہو جائے، تو یہ ایک المیہ ہو گا۔ صحافی کا فرض ہے کہ وہ اپنے قارئین یا ناظرین کو درست، متوازن اور تحقیق شدہ معلومات فراہم کرے، نہ کہ ایسی آراء جو ذاتی مفادات یا سیاسی وابستگیوں پر مبنی ہوں۔
سچ بولنے کا عمل کبھی آسان نہیں رہا۔ خاص طور پر جب طاقتور طبقات اور ادارے اس سچ سے خائف ہوں۔ پاکستان میں صحافیوں پر حملے، اغوا، اور قتل کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ سچ بولنا بعض اوقات موت کو دعوت دینا بن جاتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود، سچ بولنے والے کبھی مکمل ختم نہیں ہوتے۔ وہ کم ضرور ہوتے ہیں، مگر ان کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہی صحافی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جنہوں نے سچ کے ساتھ وفاداری نبھائی، چاہے ان کا انجام کچھ بھی ہوا ہو۔
آج کا المیہ یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان فاصلہ مٹ چکا ہے۔ سوشل میڈیا نے اس مسئلے کو اور گھمبیر کر دیا ہے۔ جہاں کوئی بھی شخص، جسے خبر نویسی کے اصولوں کا علم نہیں، ایک ویڈیو یا تصویر کے ذریعے "خبر” پھیلا دیتا ہے۔ صحافت اب مخصوص ٹرینڈز، یوٹیوب چینلز، اور وائرل پوسٹس کے رحم و کرم پر ہے۔ ایسے ماحول میں سچ کی تلاش اور زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔ اب صحافی کو صرف ادارتی دباؤ کا سامنا نہیں بلکہ آن لائن ٹرولنگ، کردار کشی، اور جعلی الزامات کا بھی سامنا ہوتا ہے۔
لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ صحافی کو کس حد تک آزادی دی جانی چاہیے؟ کیا آزادی کا مطلب یہ ہے کہ صحافی کسی بھی ادارے، فرد یا نظریے پر بغیر تحقیق الزام تراشی کرے؟ ہرگز نہیں۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے۔ سچ بولنے کے لیے نہ صرف دل گردہ چاہیے بلکہ صحافتی دیانتداری بھی ضروری ہے۔ صحافت کا مطلب یہ نہیں کہ جو چاہو بول دو، بلکہ یہ ہے کہ جو درست ہے، صرف وہی بولو — چاہے وہ تمہارے ذاتی نظریے کے خلاف کیوں نہ ہو۔
ہمارے معاشرے میں صحافت کا ایک اور بڑا مسئلہ اشتہارات اور مالی دباؤ ہے۔ بڑے میڈیا ہاؤسز اکثر حکومتی یا نجی اشتہارات پر انحصار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ بہت سے ادارے اپنے اشتہارات کے تحفظ کے لیے کچھ معاملات پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ کچھ صحافی بھی ان اشتہارات کی تقسیم کا حصہ بن کر غیر جانبداری کھو بیٹھتے ہیں۔ اس نظام میں سچ اکثر پیسے کے نیچے دب جاتا ہے، اور عوام تک وہی خبر پہنچتی ہے جو "مفاد” میں ہو، نہ کہ "حق” میں۔
ایسے ماحول میں ہمیں صحافت کو از سر نو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ کیا ہم صرف وہی سنتے رہیں گے جو ہمیں اچھا لگے، یا وہ بھی سننے کو تیار ہیں جو سچ ہے؟ کیا ہم رائے اور سچ میں فرق کر سکتے ہیں؟ اور کیا ہم ایسے صحافیوں کو سپورٹ کرنے کے لیے تیار ہیں جو دباؤ کے باوجود سچ بولتے ہیں؟
صحافت کے طلبہ، نئے لکھاری، اور نوجوان رپورٹرز کے لیے سب سے اہم سبق یہی ہے کہ آزادی سے مرعوب نہ ہوں، بلکہ سچ سے جُڑے رہیں۔ سچ ایک کٹھن راستہ ہے، لیکن یہی وہ راستہ ہے جو آخرکار صحافت کو عزت اور اعتماد دلاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ صحافت اپنے اصل مقصد پر واپس آئے، تو ہمیں بطور معاشرہ سچ کی قدر کرنی ہو گی، سچ بولنے والوں کو تحفظ دینا ہو گا، اور سچ کو سننے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔
آخر میں بات وہی ہے: آزاد رائے بہت اہم ہے، مگر سچ اس سے کہیں زیادہ۔ کیونکہ رائے غلط ہو سکتی ہے، سچ نہیں۔ سچ تلخ ہو سکتا ہے، مگر وہی ہمیں بیدار کرتا ہے، سوچنے پر مجبور کرتا ہے، اور ہمیں بہتر معاشرہ بنانے میں مدد دیتا ہے۔ اگر صحافت صرف آزاد رائے کی ترجمان بن جائے اور سچ سے منہ موڑ لے، تو پھر یہ صحافت نہیں رہتی — یہ صرف شور رہ جاتی ہے، اور شور میں کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔